اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
میری منزل تک کا ساتھی صرف میرا سا یہ نکلہ
کہیں خاک میں نہ مل جائیں میرے دل میں رہنے والے
دکھ دے کر سوال کرتے ہو
تم بھی غالب اکمال کرتے ہو
کرنے گئے تھے اُس سے تغافل کا ہم گلہ
کی ایک ہی نگاہ کہ بس خاک ہو گئے
درد ہو دل میں تو دوا کیجئے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجئے
ہوئی مدت کے غالب مر گیا پر یاد آتا ہےوہ
ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا
تم پہ مرتے ہیں تو کیا مار ہی ڈالو گے ہمیں
میری وحشت تری شہرت ہی سہی
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
For more posts click here;
0 Comments